مرتد کی سزا اسلام میں

Muhammad Rehan
13 min readOct 8, 2020

1 شرعی حیثیت

2 اعتراضات

3 ایک بنیادی غلط فہمی

4 (requirement)ایک منظم سوسائٹی کا فطری اقتضا

5 اعتراضات کے جوابات

6 مجرد مذیب اور مذہبی ریاست میں فرق (just)

7 ریاست کا قانونی حق

8 انگلینڈ کی مثال

9 امریکہ کی مثال

10 ریاست کا فطری حق

11 پیدائشی مسلمانوں کا مسئلہ

شرعی حیثیت

اس بات میں کوئی شک سرے سے ہونا ہی نہیں چاہیئے کہ اسلام میں مرتد یعنی پھرنے والے کی سزا قتل کے سوا کچھ اور ہے۔ ائمہ مجتھدین اس موضوع میں مکمل اتفاق رائے کا اظہار کرتے ہیں ۔ خلافت راشدہ میں دیکھا جائے تو بہت سی مثالیں اس کی تائید میں مل جاتی ہیں کہ مرتد کی سزا اسلام میں قتل ہی ہے۔

اعتراضات

ایک عام شخص کے ذہن میں بنیادی طور پر چار سوالات آسکتے ہیں جب وہ مرتد کی سزا کے مسئلے پر غور کرتا ہے۔

کہ کسی بھی مذہب کا اپنے ماننے والوں کو زبردستی اپنے اندر رکھنا اور نکلنے کی سورت میں قتل کی دھمکی دینا تو انسان کے ضمیر کے خلاف بات ہے۔ ذہنی طور پر انسان آزاد ہے۔ اسے جو نظریہ اچھا لگتا ہے وہ اسے قبول کرے اور جس میں شک پیدا ہو وہ اسے چھوڑ دے۔

ثانیاََ یہ کہ کسی شخص کی ایک رائے کو اگر جبراََ بدلہ جائے گا تو وہ اس کی خالص رائے تو نہ ہوگی بلکہ ایسا کرکے منافقت ، مکاری اور نفرت کے بیج کو بو دیا جائے گا جو پھلتا پھولتا رہے گا۔ ایسا کرنے سے کسی مذہب یا معاشرے کو بجائے فائدہ ہونے کے نقصان ہی کا اندیشہ ہے۔کسی کی گردن تو زبردستی جھکوائی جاسکتی ہے لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کے دل اور دماغ کو بھی زبردستی اسیر کر لیا جائے۔

ثالثاََ یہ کہ اگر ایک مذہب اپنے ماننے والوں کو اسے چھوڑنے اور اس سے اختلاف رکھنے کی اجازت نہیں دیتا تو دنیا کہ تمام مذاہب کی آپس میں تبلیغ و اشاعت کا دروازہ ہی بند ہو جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ ایک عقیدے کو قبول کرلیا جائے کیونکہ دل و دماغ اس وقت ااس کو تسلیم کرتے تھے لیکن بعد میں اگر کوئی بات دل میں کھٹکا محسوس کرے کہ جو اس نظریےسے انحراف کی تحریک قلب میں پیدا کردے تو اس سورت میں قتل کی دھمکی سامنے ہو جو دوبارہ اپنے آپ کو دبانے میں مجبور کرے جس کی وجہ سے دل میں بغض، نفرت اورمنا فقت کے بیج خود بخود پھلنا پھولنا شروع ہو جایئں گے۔ بظایر یہ تو ایک تضاد نظر آتا ہے۔

رابعاََ یہ کہ ایک طرف اسلام دین میں کسی بھی جبر کی کوئی اجازت نہیں دیتا لا اکراہ فی الدین اور دوسری طرف اپنے پیرووں پر یہ حد اور زبردستی بھی عائد کردیتا ہے کہ اگر اس سے پھرو گے تو زندگی سے ہاتھ دھونا ہوگا۔

یہ چند ایسےسوال ہیں جو معترضین کی جانب سے بہت اٹھائے جاتے ہیں اور ان پر تھوڑا سا غور کرکے عام نوجوان مسلمان آسانی سے اپنا ایمان گنواہ بیٹھتے ہیں اور شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ایک بنیادی غلط فہمی

سب سے پہلے تو اس بات پر غور کرنا بہت ضروری ہے کہ اسلام کا نظریہ ہے کیا۔ یہ ایک مذہب ہے جو پوری قطیعت کے ساتھ یہ دعوی کرتا ہے کہ یہی وہ واحد راستہ ہے جو صحیح ہے۔ باقی تمام راستے آگ کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اگر زندگی اور آخرت کی فلاح چاہتے ہو تو اسی ایک راستے کی سچے دل سے پیروی کرو ۔اس کے حق ہونے کے اعلان میں کسی قسم کی کوئی تذبذب نہیں ہے بلکہ پورے 100 فیصد یقین کے ساتھ اسلام اپنے حق اور دوسرے عقائد کے باطل ہونے کا کھلم کھلا اعلان کرتا ہے ۔

metaphysicsمذہب ایک عقیدہ اور خیال ہے جو بنیادی طور پر ما بعد الطبیعات

میں چند انعامات اور دعوے کسی شخص کے لئے کرتا ہے اور اس سے زندگی میں چند تقاضے کرتا ہے۔

یہ صرف ایک رائے ہے جس میں معاشرہ کی تنظیم، معاملاتِ دنیا اور ریاست کی تشکیل کا کوئی تعلق نہیں۔ اس رائے کا تعلق صرف اور صرف انفرادی زندگی سے ہے ۔ اگر کوئی شخص اس میں اپنی تسکین محسوس کرے تو لازمی اسے قبول کرے اور اگر نہیں تو کو ئی مسئلہ نہیں اور بہت سے دوسرے راستے موجود ہیں۔

(physical and meta physical)لیکن جب ان مذاہب میں بات ہوتی ہے اسلام کی تو اسلام بیک وقت حیات فی طبیعت اور ما فی الطبیت دونوں مسائل کو مدنظر رکھتا ہے۔

یہ صرف حیات بعد الموت سے نہیں بلکہ حیات قبل الموت کی فلاح و بہتری اور تشکیل صحیح پر بھی بحث کرتا ہے اور نجات کو حیات قبل الموت کی تشکیلِ صحیح پر منحصر کرتا ہے۔

مانا کہ یہ ایک رائے ہے لیکن یہ کسی ایک نہیں بلکہ پوری زندگی کے نقشے کی بنیاد ہے۔اس کے اندر معاشرہ کی تنظیم، معاملات دنیا اور ریاست کی تشکیل کی مکمل ھدایات موجود ہیں اور یہ صرف انفرادی نہیں بلکہ زندگی کی اجتماعیت پر بھی مفصل بحث کرتا ہے۔ یہی ایک مذہب اور دین کا فرق ہے۔

یہ ایک انفرادی رائے نہیں بلکہ وہ رائے ہےکہ جس میں تمام انسانوں کی جماعت کیلئے تمدن کے پورے نظام کو ایک خاص شکل میں قائم کرنے کی بنیادموجود ہے نہ کہ وہ رائے کہ جس کو جب مرضی اختیار کرلیا جائے اور جب دوسری لہر اٹھے تو اس سے نکل جائیے۔ یہ وہ نظام ہے کہ جس کو ہزاروں لاکھوں انسانوں کی ایک جماعت نے قائم کرنے میں اپنا تن، من دھن لگا یا ہے ۔ یہ یقیناََ بہت سنجیدہ مسئلہِ زندگی ہے جس کے بننے بگڑنے سے لاکھوں کروڑوں زندگیوں کا بناو بگاڑ ہے۔ یہ ایک کھیل تفریح نہیں ہے ۔

ایسی رائے رکھنے والی جماعت کی رکنیت کو انفرادی آزادیوں کا کھلونا دنیا میں کب بنایا گیا ہے اور کون بناتا ہے کہ اسلام سے اس کی توقع رکھی جائے؟

(requirement) ایک منظم سوسائٹی کا فطری اقتضا

ایک منظم معاشرہ اپنے چند اصول و ضوابط پر استوار ہوتا ہے اور اپنے اندر موجود افراد کو ہرگز یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ ان بنیادوں سے اختلاف کریں جن پر وہ قائم ہےلیکن یہ جائز ہے کہ لوگ فروعی اختلاف کرسکیں۔ بنیادوں سے مراد یہاں یہ ہے کہ وہ مسائل کہ جن کے نہ ماننے سے سٹیٹ کا جزو بننا ہی مشکل ہوجائے۔ زندگی کا کوئی معاشرہ ایسی اجازت نہیں دیتا۔

اسلام اس مسئلے میں جتنی رواداری برتتا ہے کوئی اورمعاشرہ برت ہی نہیں سکتا۔ یہ ان لوگوں کو جو اس کے اصولوں کی بنیادوں پر بنے ہوئے معاشرے سے اختلاف رکھتے ہیں اپنی حدود میں بحیثیت ذمی رہنے کی اجازت دیتا ہے اور آخری وقت تک ان بندگان خدا کو دیکھتا ہے کہ وہ اس نظامِ زندگی کی برکات کو پاکر اور غور کرکے اس نظام کا حصہ بنیں۔

رہی بات ان سنگریزوں یعنی سخت دل والوں کی جو اس سے شدید نفرت میں مبتلا ہیں اور ان کے اقدامات سے اسلامی معاشرےکی بنیادوں ہی کو خطرہ ہے یعنی ان کی وجہ سے فساد فی الارض کا واضح خطرہ موجود ہے تو ایسے چند افراد کو اس معاشرے سے اکھاڑ پھینکنا ہی درست ہے۔ رہی بات انفرادی شخصیت کی اہمیت کی تو وہ اہمیت اپنی جگہ لیکن وہ جان اتنی قیمتی نہیں کہ سوسائٹی کے پورے نظام کی خرابی اس کی خاطر گوارہ کر لی جائے۔

اعراضات کے جوابات

لوگوں کے اذہان میں شکوک و شبہات کی بنا پر ان کا اپنی رائے کو ایک خاص دین یا نظریے کے لئے بدل دینا اتداد نہیں بلکہ ایک شخص بہم ثبوت پہنچاتا کہ جن بنیادوں پر ایک سوسائٹی استوار ہے اور چل رہی ہے ان اصولوں کی بنیاد ہی ٖغلط ہے۔ ایسے شخص کے لئے لازم ہے کہ اگر وہ قبول نہیں کرتا تو اس سوسائٹی سے نکل جائے لیکن اگر وہ یہیں رہے اور کھلم کھلا اس نظام کی بنیادوں پر تنقید کرنا شروع ہوجائے، جیسا کہ ایک انسانی شخصیت کے لئے حق(جسے وہ حق سمجھتا ہے) کی وصیت کرنا اور اس کے لئے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرنا ایک اعلی میعار کی نشانی ہے، تو وہ معاشرے کی بگاڑ اور تباہی میں اہم کردار ادا کرے گا ۔ اُس کی دو سزائیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو اس سے تمام حقوق شہریت لےکر اسے زندہ رہنے دیا جائے یا پھر قتل کردیا جائے۔ پہلی سزا زیادہ خطرناک ہے کہ نہ وہ زندوں میں شمار ہے نہ مردوں میں اور اس کی ذات سے لوگوں میں مزید فتنہ پھیلنے کا اندیشہ موجود ہے۔

یہ معنی پہنچانا کہ اسلام میں ایک شخص کو موت کا خوف دلا کر اسےمنافقانہ رویہ اختیارکرنے پر مجبور کیا جاتا ہے صرف باطل کے سوا کچھ نہیں۔ بلکہ اسلام واضح طور پر یہ چاہتا ہے کہ ان لوگوں کا دروازہ اس کے لئے بند ہو جو تلون کی بیماری میں مبتلا ہیں ۔ دراصل آگے فرض اور منصب کا دائرہ کار بہت سنجیدہ ہے۔ لھذہ ہر اس شخص کو متنبہ کر دیا جانا بہت ضروری ہے کہ جس وادی میں قدم رکھ رہے ہو پھر یہاں سے سے پلٹنا ناممکن ہےاور سزا موت ہے اس لئے ٹھنڈے دل ودماغ سے اچھی طرح سوچ لو اور اپنا وقت لو۔

دوسرے مذاہب کے پرچار کیلئے تو واقعی انہیں اپنے دروازے آنے جانے والوں کے لئے کھول دینے چاہیئے لیکن جس مذہبِ فکروعمل پر سوسائٹی اور اسٹیٹ کی تعمیر کی گئی ہو، اس کے لئے یہ چیز ناگوار ہے۔ منظم سوسائٹی کو قائم کرنا تو جان جوکھوں کا کام ہے اور کوئی بھی انقلاب ہو، اس کے لئے خون دینا ناگزیر ہے۔اگر دوسرے مذاہب کی طرح اسلام بھی اجازت دے تو معاشرتی تخریب اور اسلامی معاشرے کے اجزائے تعمیر کا انتشار مقدر ٹھرے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان انسانی زندگی ہی کو ہوگا۔

لا اکراہ فی الدین کا مطلب ہے کہ ہم کسی کو اپنے دین میں آنے کیلئے مجبور نہیں کرتے، لیکن جو واپس جانا چاہتا ہو اسے ہم پہلے ہی خبردار کردیتے ہیں کہ یہ دروازہ بند ہے لہذہ اگر آئے ہو تو فیصلہ کرکے آوکہ واپس نہیں جانا ورنہ براہ کرم آؤ ہی نہیں ۔

یقیناََاسلام میں نفاق کا دروازہ بند ہے لیکن اگر کوئی شخص حماقت سے منافق بن جائے تو اس میں قصور اس کا اپنا ہے۔

اسلام اپنے آپ کو حق کہتا ہے اور پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہے اس کا معاملہ تمام مذاہب کی طرح کا نہیں ہے بلکہ یہ تو دین ہے۔ جب اپنے آپ کو حق بھی کہا جائے اور آنے جانے کا راستہ بھی کھلا رکھا جائے تو کچھ سمجھ نہیں آتی۔ یہاں مسئلہ ایک ہی رویہ ہے۔

مجرد مذہب اور مذہبی ریاست میں فرق

مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی دلائل اسلام کے حق میں دئے جاتے ہیں وہ مذہب کو ذہن میں رکھ کر دئے جاتے ہیں ۔ جہاں آج اسلام خودمحض ایک مذہب کی حیثیت رکھتا ہے وہاں ہم بھی مرتد کو سزائے موت دینے کے قائل نہیں ہیں۔

فقہ اسلامی کی رو سے محض ارتداد کی سزا ہی نہیں بلکہ اسلام کے تعزیری احکام میں سے کوئی حکم بھی ایسے حالات میں قابل نفاذ نہیں رہتا جب کہ اسلامی ریاست موجود نہ ہو

جہاں مذہب خود حاکم ہو۔ جہاں مذہبی قانون ہی ملکی قانون ہو۔ اور جہاں مذہب ہی نے امن و انتظام کو برقرار رکھنے کی ذمے داری اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہو۔ آیا وہاں بھی مذہب ایسے لوگوں کو سزا دینے کا حق رکھتا ہےیا نہیں جو اس کی اطاعت وفاداری کا عہد کرنے کے بعد اس سے پھر جائیں؟

اس کا جواب ہاں ہے تو بلکل ٹھیک لیکن اگر نہیں تو اختلاف سارا ہی دور ہوجاتا ہے اورہم اس اعتراض کو معلوم کرنا چاہتے ہیں۔

ریاست کا قانونی حق

اصل میں آج کے دور کی ساری بحث ہی اس موضوع پر ہوتی ہے کہ آیا مذہبی ریاست صحیح ہے یا نہیں ۔

جب مغرب کے سامنے مذہبی ریاست کی بات ہو تو ان کی اپنی المناک تاریخ(روم) کی یاد ان پر تازہ ہوجاتی ہے اور اس مذہبی ریاست کا نام سنتے ہی وہ خوف سے لرز اٹھتے ہیں اور جذبات کا ہیجان انہیں ٹھنڈے دل سے سوچنے نہیں دیتا ۔ رہے ان کے مشرقی شاگرد تو اجتماعی اور عمرانی مسائل پر علم تو انھیں ادھار انہیں سے ملا لیکن میراث میں وہ جذبات بھی ان کی طبیعت کا حصہ بن گئے۔اس لئے وہ اصل قانونی و دستوری سوال کو ان بحثوں میں الجھا دیتے ہیں جو مذہبی ریاست کے بذات خود صحیح یا غلط ہونے کی بحث سے تعلق رکھتی ہوں ۔

جو ریاست کسی خطہ زمین پر حاکمیت کرتی ہو۔ آیا وہ اپنے وجود کی حفاظت کے لئے ایسے افعال کو جرم قرار دینے کا حق رکھتی ہے یا نہیں جو اس کے نظام کو درہم برہم کرنے والے ہوں۔ اگر نہیں تو تاریخ میں ایک مثال ایسی بیان کردی جائے۔ اشتراکی یا فاشسٹ ریاستوں کو نکال کر۔

ان جمہوری ریاستوں کو لیجئے کہ جن کی تاریخ اور جن کے نظریات سےموجودہ زمانے کی دنیا نےجمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔ اور جن کو آج جمہوری نظام کی علمبرداری کا شرف حاصل ہے۔ کیا یہ اس حق کو استعمال نہیں کررییں ۔

انگلستان کی مثال

British Subjects and Aliens برطانوی قانون میں دو طرح کے لوگ ہیں رعایا اور اغیار۔

اغیار دراصل کسی دوسرے ملک کے باسی ہیں جو انگلینڈ میں بستے ہیں ان کو اس وقت تک شہریت نہیں مل سکتی جب تک وہ ملکہ برطانیہ سے عھد نہیں کرتے۔ اور عھد ہے وفاداری کا۔

اغیار میں جو برطانوی رعایا ہونےکی ضروری شرائط پوری کرچکا ہو وہ شہریت کے لئے درخواست دے سکتا ہے اور سکرٹری شاہ برطانیہ اس کی وفاداری کا حلف لے گا اور سرٹیفیکیٹ دے گا۔ کوئی شخص جو رعایا ہو وہ اس ملک میں رہتے ہوئےکسی دوسری قومیت کو اختیا ر نہیں کرسکتا۔ ہا ں صرف اس وقت کرسکتا ہے جب وہ ملک کی حدود سے باہر ہو۔

برطانوی حدود کے باہر کسی شخص کو اس ملک کی قومیت حاصل کرنے کا کوئی اختیار نہیں جس کے high treasonساتھ برطانیہ حالت جنگ میں ہوبلکہ اگر ایسا کرے گا تو اس کی سزا موت ہے۔

برطانوی رعایا میں سے ملک کی حدود کے اندر یا باہر کوئی شخص اگر ایسے شخٓص سے تعاون کرے جو بادشاہ کا دشمن ہو۔ اس کی مدد کرے یا کوئی فعل ایساکرے جو دشمنوں کو مضبوط یا بادشاہ اور ملک high treason will be punished as death penalty. کو کمزور کرنے والا ہو وہ بھی غدر کبیر کہلائے گا۔

امریکہ کی مثال

امریکہ میں شہری قوانین تقریبا برطانیہ کے ساتھ ملتے جلتے ہی ہیں لیکن یہاں وفاداری قوم اور دستور کے ساتھ ہے۔کوئی شخص قانونی شرائط کی تکمیل کرنے کے بعد دستور مملکت کا حلف اٹھا سکتا ہے۔

باقی سب غیر ہیں ۔

ریاست کا فطری حق

یہ بحث بلکل الگ ہے کہ ریاست کا وجود جائز ہے یا نہیں بلکہ اب بحث صرف اس موضوع پر مقصود secular stateہے کہ ریاست الہی اور دنیوی ریاست

کی کیا حیثیت ہے۔

ہمارے نزدیک خدا کی حاکمیت کے سوا ہر دوسری حاکمیت پر ریاست کی تعمیرسرے سے ناجائز ہے۔ ناجائز ریاست پھر اپنے غلط نظام کی حفاظت کے لئے قوت استعمال نہیں کرسکتی۔

مخالفین الہی ریاست کو ناجائز اور دنیوی ریاست کو جائز سمجھتے ہیں اس لئے ان کے نزدیک دنیاوی ریاست کا اپنے وجود و نظام کی حفاظت میں جبر سے کام لینا عین حق اور الہی ریاست کا یہی فعل کرنا عین باطل ہے۔ لیکن یہ قاعدہ عالمگیر مقبولیت رکھتا ہے کہ ریاست کا فطری حق ہے کہ اپنے وجود اور adherent right اپنے نظام کے لئے جبر اور قوت کو استعمال کرے۔ اس حق کو ریاست کا ذاتی حق کہا جاتا ہے۔

پیدائشی مسلمانوں کا مسئلہ

وہ لوگ جنہوں نے اپنے ہوش و حواس میں اسلام کو قبول کیا اور بعد میں اس کو ترک کردیا ا ن کی تجویز کردا سزا کی تو سمجھ آتی ہے لیکن جنہوں نے اسلام کو خود قبول نہ کیا ہو بلکہ ماں باپ کے گھر میں پیدا ہونے سے اسلام ان کا آپ سے ٓآپ دین بن گیا ہو۔ایسا شخص اگر ہوش سنبھالنے کے بعد اسلام سے مطمئن نہ ہو تو یہ زیادتی ہوگی کہ اسے سزائے موت کی دھمکی دے کر اسلام کے اندر رہنے پر مجبور کیا جائے۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ پیدائشی منافقوں کی ایک اچھی خاصی تعداد مسلم سوسائٹی میں موجود ہوگی جو دین کے لئے خود ناپسندیدہ ہے۔

اس کے دو جوابات ہو سکتے ہیں ایک تو اصولی جواب اور دوسرا عملی جواب۔

اصولی جواب

یہ بات واضح ہے کہ جس مذہب کے والدین کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی اسی مذہب کا پیرو ہوتا ہے۔

aliensیہ بات ناممکن ہے کہ پیروان دین ۔ رعایا اور شہریوں کی اولاد کو ابتدا میں کفار یا اغیار

کی حیثیت سے پرورش کیا جائے اور جب وہ بالغ ہوجائیں تو اس بات کا فیصلہ ان کے اختیارپر چھوڑ دیا جائے کہ پیروی اختیار کرتے ہیں یا نہیں ۔

اس طرح دنیا کا کوئی اجتماعی نظام نہیں چل سکتا۔ سوسائٹی کی بقاکا انحصارمستقل آبادی نسل در نسل ذمہ داری پر ہے۔ اگر ایسی پیروی غیر یقینی ہوتو اجتماعی نظام دائماََ متزلزل رہے گا۔

پیدائشی پیروی و شہریت کو اختیاری میں تبدیل کردینا اور ہر بعد کی نسل کے لئے دین اور دستور و آئین اور تمام وفاداریوں سے انحراف کا دروازہ کھلا رکھنا ایک ایسی تجویز ہے جو بجائے خود سخت نامعقول ہے اور آج ٓتک کسی دین اور کسی ریاست نے اسے اختیار نہیں کیا۔

عملی جواب

یہ بات بھی بلکل واضح ہے کہ ہر اجتماعی نظام میں انتظام ہوتا کہ نئی نسلوں کو اپنی روایات، تہذیب، اصولوں اور وفاداریوں کو منتقل کرے اور قابل اعتماد بنائے۔اور 1000 میں سے 999 افراد اس کی اتباع اور وفاداری بھی کرتےہیں۔ اور چند افراد ہی ہوتے ہیں جو انحراف و بغاوت کا میلان لئے اٹھتے ہیں۔

چند افراد کی خاطر اصول میں کوئی ایسا تغیر نہیں کیا جاسکتا جس سے پوری سوسائٹی کی زندگی خطرے میں ہو اور بے اطمینانی میں مبتلا ہوجائے۔ اس طرح دین سے انحراف کرنے والوں کے لئے دو دروازے کھلے ہیں۔ یا تو سوسائٹی کی حدود سے باہر نکل کر کھلم کھلا انحراف کریں ۔ یا جس بات کو وہ حق سمجھتے ہیں، اس نظریے کے پرچار کرنے ٓمیں لگ جائیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈالیں اور جان جوکھوں کا وہ کھیل کھیلیں جس کے بغیر کسی نظام کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کئی سو سالوں سے عملی یا ذہنی طور پر کسی نہ کسی قوم کے غلام رہے ہیں ۔ اس کی وجہ سے ہم نے نسل درنسل اپنے دین کی تعلیم کو ہی ترک کردیا ہے ۔ ہم نے دور غلامی میں جان بوجھ کر یا بے شعوری میں اپنی اولاد کو کافرانہ تعلیم وتربیت کے مکمل حوالے کر دیا۔

لھذا اب دین سے بغاوت و انحراف کے میلانات رکھنے والوں کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ اگر آج کے دور میں اسلامی حکومت قائم ہوتی ہےتو مولانا مودودی کی رائے یہ ہے کہ ایک نوٹس جاری کیا جائے کہ وہ لوگ جو اسلام سے اعتقاداََ یا عملاََ منحرف ہوچکے ہیں اور منحرف رہنا چاہتے ہیں وہ ایک سال کے اندر اندر غیر مسلم ہونے کا اعلان کرکے حدود کو چھوڑ دیں ۔ اس کے بعد تمام نسل کو مسلمان سمجھا جائے گا اور ان پر فرائض دینی واجب کئے جائیں گے۔

--

--